Friday, August 14, 2009

Wednesday, August 27, 2008

Tahir Ul Qadri Sb.

This is Demo Version. Output is truncated. Please purchase full version....معزز مشائخ عزائم اور جدید القد ر اساتذہ علم و فن ، علمائ کرام اور جملہ اہلِ علم حضرات۔ اور معزز خواتین۔ الحمد و للہ تعالیٰ اللہ کی توفیق اور اسکا فضل و کرم ہے جس سے ہم آج ایک نہایت ہی اہم موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس گفتگو کا پس منظر ایک علمی اور شکنی فتنہ ہے۔ جو چند دن قبل کسی کی غلط گفتگو یا غیرفقیہانہ بیان سے وجود میں آیا اور ہزاروں لاکھوں زہنوں کو اس نے نہ صرف اس نے پریشان کیا بلکہ اہل بیت اطہار اور حضور کے جمعی صحابہ کرام ۔ انکے تقدس پر اکابرو اسلاف امت کے تقدس پر، اور اسلام کے محرمات اور مقدسات پرشکوک و شبہات کی گرد بہت سارے ذہنوں پر پڑی اور ایسی فتنہ پرور باتوں سے اور مغالتہ انگیز تقریروں سے امت مسلمہ میں بالعموم اور نوجوان نسل میں بالخصوص اسلام کے متقدات اور اسلام کے مسلمات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ۔اور مجموعی طور پر اسلام کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اور علما ئ دین پر بھی اسطرح اگلی نسلوں کا اعتماد متحمل ہوتا ہے بلکہ اٹھ جاتا ہے۔اور ایک گیپ آ جاتا ہے۔ نتیجہ تن اہل علم میں ، اہل دین میںاور امت مسلمہ کی نئی آنیوالی نسل میں ۔ میں نے چاہا کہ علم ِ مغالتے کا اژالہ کیا جائے اورایک جسکی بنیاد اور اثاث غالباً ایک اعتقادی فتنہ ہے اسکا قلع قمع کیا جائے اور اہل بیت اطہار اور صحابہ کی عزت و حرمت کے دفاع اور تحفظ کا ایمانی فریضہ ادا کیا جائے میں نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآن مجید کی دو آیات کریمہ کے چند ریلونٹ الفاظ سے کیا ہے جو ہمارے نفس گفتگو کے ساتھ ریلونٹ یا مطابق ہیںسورۃ انکبوت میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ آیت نمبر 43میںفرمایا یہاں اللہ رب العزت نے عقل اور علم میں دو چیزیں بیان کی ہیں دونوں میں فرق بھی بیان کی ہے اور ربط بھی بیان کیا ہے کہ اسکو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو صاحبان علم ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ کسی چیزکے صحیح فہم کے لیے تعقل کے لیے اور تفکہہ کے لیے اور صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے اس سبجیکٹ کا عالم ہونا ضروری ہے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جوالعا لمو نہیں ہے اس سبجیکٹ کو اس خبر کو اس موضوع کو اس فن کو پورے طور پر نہیں جانتے اور اسکے عالم نہیں ہیںوہ اس بات کو سمجھ بھی نہیں سکتے اسکی گہرائی تک پہنچ بھی نہیں سکتے اور اسکے لیے دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا اے لوگو!تم ربانین ہو جائویعنی ایسے عالم بنو جواپنے آپ میں ربانی ہو یہ سورۃ الٰ عمرا ن کی آیت نمبر 79ہے۔دونوں ٹکڑے دونوں آیت کریمہ کے اور تیسرے مقام پر ارشاد فرمایا سورۃفاطر میںکہ اللہ رب العزت کی خشعیت رکھنے والے لوگ ہی عالم ہوتے ہیں یا خشعیت کا اسکا دوسرا رخ یہ ہے کہ خشعیت اللہ کی انہی کو حاصل ہوتی ہے جو صحیح معنی میں عالم ہوتے ہیںجیسے عقل اور علم کوباہم لازم و ملزوم قرار دیا گیا اور عقل کا معنی فق ہے سمجھ ہے تفقق ۔ تو علم اور فق کو اورعقل کو اللہ رب العزت نے جوڑا ہے۔ اسی طرح علم کو اور خشعیت کو جوڑا ہے اگر خشعیت نہ ہو اور خشعیت طبعیتوں کے اندر نرمی پیدا کرتی ہے رفق پیدا کرتی ہے طبعیتوں کے اندر ملاطفت پیدا کرتی ہے، عاطفت پیدا کرتی ہے، ملائمت پیدا کرتی ہے اور اسکی وجہ سے طبعیتوں میں علم آتا ہے ٹھہرائو آتا ہے اور طبعیتیں ٹھنڈی ہوتی ہیںاور یہ سارا جو مزاج کو یہ جو اثرات ملتے ہیں خشعیت کے باعث یہ اس سے ایک مزاج بنتا ہے علمی، وہ علمی مزاج دراصل دین اور شریعت کے احکام کے صحیح فہم و فق کے قابل بنتا ہے اب یہ تینوں حصے آیات کریمہ کے جو میں نے قرآن مجید کے میں نے آپ کے سامنے اپنی گفتگو کی تمہید کے طور پر آپ کے سامنے عنوان کے طور پر تلاوت کیے انہیں امام بخاری ، صحیح بخاری کی جام انزام کی کتاب العلم میں لائے ہیں تو گویا میں نے قرآن مجید کی آیات کریمہ سے تبرکاً گفتگو کاآغاز کیا مگر اختیار کیا اسلوب اپنی گفتگو کو شروع کرنے کا امام بخاری کی الجامِ الاصفی سے۔ انہوں نے کتاب العلم میں ایک باب قائم کیا ہے اور وہ باب بہت ریلونٹ ہے ہمارے آج کے موضوع کے ساتھ۔ یہ دسواں باب ہے صحیح بخاری کی کتاب العلم کا ۔ اور اس باب کا عنوان بڑا عجیب ہے اور بڑا فکر انگیز ہے۔اور ہدایت آفرین ہے۔ ہدایت دیتا ہے، رہنمائی دیتا ہے۔باب امام بخاری نے قائم کیا ہے باب العلم میں کہ کچھ بات کہنے سے پہلے اسکا علم ہونا ضروری ہے یہ باب ہے کہ علم قول سے پہلے ضروری ہے۔بعض لوگ قول کو مقدم کر دیتے ہیں علم پر۔علم نہیں ہوتا ، بات کر دیتے ہیںتھوڑا سا پڑھ لیا یا کسی چیز کو سطحی سا ایک دو کتابوں میں دیکھ لیااردو کی کسی کتاب کی تفسیر میں دیکھ لیا یا کسی حدیث کی کتاب کی تشریح میں دیکھ لیا تو تھوڑا سا جان لیا اور اسکو سمجھا کہ اس سبجیکٹ پر یہ کافی علم ہے وہ علم نہیں ہوتا تو امام بخاری فرما رہے ہیں کہ کوئی بات زبان پر لانے یا کسی بات کو اپنے عمل میں لانے سے پہلے ضروری ہے کہ اسکا علم قما قہم ہو اور جو صاحب علم نہیں ہے اس سبجیکٹ میں، اسے اس موضوع پر بات نہیں کرنی چاہیے یہ امام بخاری نے باب باندھا ہے اسکا حق نہیں ہے کہ وہ اس موضوع پر بات کرے کیونکہ وہ اس موضوع پر صاحب علم نہیں ہے ۔ قول و ربانین۔ اب اللہ رب العزت نے یہ جو لفظ استعمال کیا ۔اسکی ربانین کی تفسیر فرمائی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تفسیر امام بخاری اپنے ترجمتہ الباب میں نقل کرتے ہیںاسی باب نمبر 10میں۔فرماتے ہیںعالم ۔ اب اسکا معنی بیان کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ ربانی عالم ہونے کا معنی یہ ہے کہ صاحب علم فقہی ہوا جائے یعنی کہ طبعیت میںحلم اور بردباری ہو اور علم کا درجہ فق کا ہوجب تک آدمی صاحب فق ، فقہی نہیںاور فقہی کیساتھ علیم نہیں، اس میں علم نہیں۔حلم اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے صحابہ کرام اور طابعین اپنے طاعلین کو تلقین کیا کرتے کہ علم سے پہلے حلم سیکھا کرو حلم سے ایک خاص مزاج بنتا ہے ایک طبعیت کا سیرت کا ایک خاص رخ تشکیل پاتا ہے اور وہ اس قابل ہوتا ہے کہ علم کو علم صحیح رکھے ورنہ حلم نصیب نہ ہو اور حلم تذکیہ سے آتا ہے اگر وہ نصیب نہ ہو تو علم تغیان کا باعث بن جاتا ہے تو فرماتے کہ علم سے پہلے حلم سیکھواور امام بخاری روایت کر رہے ہیں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ فرماتے ہیں کہ حلمائ ، فقہا کہ صاحب حلم فقہی بنو جب تک تمھیں تفقہو حاصل نہ ہواور تم فقہا نہیں ہو اور حلمائ نہیں ہوصاحبان علم اس وقت تک تم عالم ربانی نہیں ہواور پھر اسکا معنی بیان کیا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فقہی اور ربانی عالم وہ ہے کہ جسے یہ معلوم ہو کہ میرے مخاطب کون ہیں کہ جسے اس بات کی سمجھ ہو کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں کہ یہ کہ اسکا سماع کون کر رہا ہے کون لوگ سن رہے ہیںمیرے طالبعلم کون ہیں میرے سامع کون ہیں۔ میں ایڈریس کن کو کر رہا ہوں۔ دس ، بیس ، پچاس اہل علم کی مجلس کو بات کر رہا ہوں، صرف علما میری بات کو سن رہے ہیںیا عوام الناس کی پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد سن رہی ہے یا ہزاروں ، لاکھوں ، ملینز کی تعداد میں عوام الناس بھی براہ راست میری بات سن رہی ہیں تو عالم ربانی کی تعریف امام بخاری نے پھر یہ بھی کی ہے حضرت عبداللہ بن عباس رحمتہ اللہ علیہ کے قول کے تحت کہ صحیح معنی میں عالم ربانی وہ ہے کہ جو اس چیز کا فہم اور معرفت رکھتا ہوکہ جو بات میں کہہ رہا ہوں کہ اسے معلوم ہو کہ میرے مخاطب کون ہیںمیرے سامع کون ہیںآیا محدود تعداد میں اہل علم میری بات کو سن رہے ہیں یا چند سو ، چند ہزار افراد ہیں مگر صاحبان علم سن رہے ہیں یا لاکھوں کی تعداد میں یا ملینز کی تعداد میں عوام الناس میری بات کو سن رہے ہیں لہذا وہ انکی اپنی اپنی فہم ، علم اور معلومات کی سطح کو ذہن میں رکھ کر بات کرے کیونکہ ہر آدمی صحیح اور ثقیل میں فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ایک عالم نے جو بات کہہ دی اگر تو سننے والا بھی عالم ہے تو وہ عالم کی بات میں بھی درست اور نہ درست کا فرق کر لے گا ۔ صحیح اور ثقیل کا فرق کر لے گا۔کہ کیا صحیح کہا ہے اور کیا غلط ہے جو دلیل اس نے دی ہے وہ قوی ہے یا ضعیف ہے کیونکہ وہ خود صاحب مطالعہ ہے کتابوں کو کھنگال سکتا ہے وہ صاحب فہم ہے لہذا وہ امتیاز کر سکتا ہے اور فتنہ میں مبتلا نہیں ہوگا اور جب ہزاروں ، لاکھوں امتہ الناس سن رہے ہیں انکو صلاحیت ہی نہیں ہے انہوں نے جو بات ایک عالم کے نام سے سنی جسکو عالم کہا جاتا ہے اس نے اس پر اعتماد کر لیا اور اب نہ اسکی رسائی کتابوں تک ہے اور نہ کتب حدیث پر ، نہ کتب تفاثیر پر اسکو Accessہے جو سنا اسکو مان لیا اور جب مان لیا اور وہ چیز اگر غلط ہے تو اس سے فتنہ پیدا ہوا اسکے عقیدے میں اور وہ گمراہ ہو گیا تو لاکھوں لوگوں کی گمراہی کا وبال اس ایک شخص پر پڑھ گیا اس لیے عالم ربانی کی یہ تعریف ہے کہ وہ یہ پہچان کے بات کرے کہ میرا سامع کون ہے اور اسکا فہم اسکی عقل ، اسکا علم اور اسکی قبول اور عدم قبول کی جو صلاحیت ہے اور صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کی جو صلاحیت ہے اسکو سامنے رکھ کر خطاب کرے ، اور بات کرے اور اس سے کلام کرے اگر ایک بات ٹی وی جیسے میڈیا پر کر دی ، اخبار میں کردی یا ہزاروں لاکھوں کے مجمع عام میں کر دی اور ٹی وی ایک ایسا میڈیا ہے کہ کروڑوں لوگ سنتے ہیں وہ لوگ بھی سنتے ہیں جو دین کو چاہنے والے ہیں اور وہ بھی سنتے ہیں جو دین سے متنفر ہیں ، بیزار ہیں ۔ جنکی طبیعتوں میں دین سے گریز ہے اور جو already دین پر طعن تشریع کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وہ بھی سنتے ہیں تو اگر انہوں نے کوئی ایسی فتنہ پرور غلط بات سن لی اور اسکا امتیاز کرنے کی بھی صلاحیت نہ تھی تو انہوں نے تو اسی بات کو پکڑ کر پورے دین کے لیے فتنہ بنانے کا موقع مل گیا لہذا اس چیز کا امتیاز کیا جائے صاحب علم کے لیے بات کی سطح اور ہوتی ہے آمتہ الناس کے لیے بات کی سطح اور ہوتی ہے اور اگر آمتہ الناس کو بھی وہ بات کرے تو اتنی تحقیق اور تقدید کے ساتھ اور گہرائی اور گیرائی کے ساتھ کرے کہ ابلاغ کا حق ادا ہو جائے جس کو قرآن مجید نے البلاغ المبین کہا ہے ، کوئی شک کی گنجائش نہ رہے تاکہ اس کے زہنوں میں شبہات کی گرد نہ پیدا ہو اور دوسری چیز یہ فرمائی انہو ں نے کہ اس لحاظ سے کہ بڑی علمی اور فنی قبہار باتوں میں جانے سے پہلے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں کا علم دیں تو ضروری یہ ہے کہ جوشخص خود صاحب فن نہیں اور فن میں اسکو درق نہیں اور درق کے ساتھ کامل مہارت نہیں تو اسے تو سغار علم سے آگے گفتگو ہی نہیں کرنی چاہیے فقط حلال اور حرام کی تعلیم دی جائے لوگوں کو واعظ اور نصیحت کی جائے فقط خیر کی بات کی جائے اور قطعی طور پر قرآن کی تفسیر اورحدیثکے کسی ایسے موضوع پر وہ کلام ہی نہ کرے کہ جو بڑی شر و بست کے ساتھ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اور تحقیق اور تقدید کے ساتھ توجہ مانگتا ہے اور یہ منکا اگر اسکے پاس نہیں ہے تو اور ہزارہاں میدان ہیں دین کی خیر کی بات کرنے کے امر بلمعروف اور نہی المنکر کے اور دعوۃٰ الخیر کے ہزارہاں میدان ہیں جن پر وہ بات کر سکتا ہے مگر جو علم خصوصیات رکھتا ہے اور قبار علم میں جو پہلو آتے ہیں ان پر گفتگو ایسے لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے اجتناب کرنا چاہیے اسی لیے پھر امام بخاری نے ہی ، میں نے کیونکہ گفتگو امام بخاری ہی کے

Thursday, May 29, 2008

اعلان مرگ ہوا تو اس نے بھی کہا دیکھ کر
اچھا ہوا مر گیا اکثر اداس رہتا تھا۔

Tuesday, May 20, 2008



آءو کے اب اس ہستی برتر کو پکاریں
وہ جس کے سوا کوءی خداوند نہیں ہے
ہے جس کا یہ اعلان کے دروازہ توبہ
احساس ندامت کے لیے بند نہیں ہے


ڈر شب کا وہاں کیوں نہ بھلا تیز بہت ہو

جس گھر میں دیا ایک ہوا تیز بہت ہو
ہاتھ اس نے میرے خون سے تر کر لیے آخر
خواھش تھی اسے رنگ حنا تیز بہت ہو

محسن بھاءی

یہ کون کرتا ہے ہواءوں سے مخبری جا کر
چراغ جب بھی جلاتا ہوں روشنی کے لیے

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوءے تھے مقتل کو سرخرو کر کے