نوشی گیلانی
جانے کب سے سنبھال کر رکھے
سب ارادے سنبھال کر رکھے
موسم عشق تیری بارش میں
خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے
جن کی خوشبو اداس کرتی تھی
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھے